بیٹ کا گاؤں دریا کنارے آباد تھا۔ یہاں کی ہوائیں ہمیشہ ایک عجیب سرگوشی کرتی تھیں، جیسے کوئی چھپا ہوا راز ہو جو ہوا میں تحلیل ہو رہا ہو۔ محمد شعیب کو ہمیشہ یہ لگتا کہ دریا کچھ کہنا چاہتا ہے، مگر کون سنے؟
ایک رات جب پورا گاؤں نیند کی آغوش میں تھا، شعیب دریا کنارے بیٹھا ہوا تھا۔ چاند کی مدھم روشنی پانی پر جھلملانے لگی، اور اچانک ایک عجیب سی آواز اس کے کانوں میں آئی— جیسے کوئی اس کا نام لے رہا ہو!
"شعیب... شعیب..."
وہ چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا، مگر کوئی نظر نہ آیا۔ پھر پانی میں ایک روشنی سی چمکی، جیسے کسی نے کوئی چیز پھینکی ہو۔ شعیب نے ہمت کرکے قریب جا کر دیکھا، تو پانی کے بہاؤ میں ایک پرانی مٹی کی تختی تیر رہی تھی۔ اس نے جھک کر تختی اٹھائی، اور جب اس پر لکھی تحریر دیکھی تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
"بیٹ کی زمین خزانے کا راز چھپائے بیٹھی ہے، مگر جو اسے کھودے گا، وہ خود کھو جائے گا!"
شعیب کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے یہ تختی گاؤں کے بزرگوں کو دکھائی، مگر جیسے ہی وہ اسے دیکھتے، ان کے چہرے زرد پڑ جاتے۔ کسی نے کچھ نہ کہا، بس سر جھکا لیا۔
اگلی رات شعیب ہمت کرکے دریا کے قریب وہ جگہ کھودنے لگا جہاں دریا کے کنارے ایک پرانا برگد کا درخت تھا۔ جیسے ہی اس نے زمین کھودنی شروع کی، زمین سے ایک سرد ہوا نکلی اور درخت کے پتوں میں سرسراہٹ ہونے لگی۔ اچانک، اس کا ہاتھ کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔
یہ ایک پرانی صندوقچی تھی!
دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے صندوقچی کھولی، مگر اندر کچھ نہ تھا— صرف ایک اور پرانا کاغذ، جس پر لکھا تھا:
"جسے خزانے کی لالچ ہوگی، وہ ہمیشہ خالی ہاتھ رہے گا۔ اصل خزانہ بیٹ کی زمین اور اس کے لوگ ہیں۔"
شعیب کو اچانک احساس ہوا کہ یہ سب ایک آزمائش تھی۔ خزانہ بیٹ کی محبت، مٹی کی خوشبو، کھیتوں میں جھومتی فصلوں اور دریائی ہواؤں میں تھا، نہ کہ کسی دفن دولت میں۔
---
اگلے دن جب گاؤں کے لوگ جاگے، تو شعیب کے چہرے پر ایک اطمینان تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ بیٹ کا سب سے بڑا راز اس کی زمین میں نہیں، بلکہ اس کی محبت میں ہے۔