خادم حسین رضوی اور تحریک لبیک پاکستان (TLP) – ایک تجزیہ
ابتدائی زندگی اور دینی پسِ منظر
خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک حافظِ قرآن اور عالمِ دین تھے، جنہوں نے درسِ نظامی مکمل کیا اور لاہور میں محکمہ اوقاف کی ایک مسجد میں خطیب کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کا زیادہ جھکاؤ صوفی اور بریلوی مکتبِ فکر کی جانب تھا، اور وہ عاشقانِ رسولﷺ کے جذبے کو نمایاں کرنے کے لیے جانے جاتے تھے۔
---
سیاسی سفر اور تحریک لبیک پاکستان کی بنیاد
2011 میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد خادم رضوی نے گستاخانہ رویوں کے خلاف سخت مؤقف اپنانا شروع کیا۔ 2017 میں، انہوں نے تحریک لبیک پاکستان (TLP) کی بنیاد رکھی، جو اس وقت ایک مضبوط مذہبی اور سیاسی جماعت کے طور پر ابھری۔
TLP کا سب سے بڑا مقصد ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ 2017 میں فیض آباد دھرنے کے ذریعے انہوں نے ملکی سیاست میں پہلی بار اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا طریقۂ احتجاج پُرجوش مگر متنازع رہا، جس کی وجہ سے وہ کئی بار حکومتی سختیوں کا سامنا بھی کرتے رہے۔
FOLLOW MY WHATSAPP CHANNEL
TLP کا اثر و رسوخ بڑھنے کے بعد، کئی بار حکومتوں کو ان کے دباؤ میں فیصلے کرنے پڑے۔ خادم رضوی کے خطابات عوام میں جذباتی اور مذہبی جوش و خروش پیدا کرتے تھے۔ ان کی جماعت نے انتخابی سیاست میں بھی قدم رکھا، اور 2018 کے انتخابات میں خاطر خواہ ووٹ حاصل کیے۔
ان کی تقاریر عوامی جذبات کو ابھارنے کے لیے جانی جاتی تھیں، جن میں وہ اردو اور پنجابی زبان کو منفرد انداز میں استعمال کرتے تھے۔
19 نومبر 2020 کو خادم حسین رضوی کا انتقال ہوا، جس کے بعد ان کے بیٹے سعد رضوی نے TLP کی قیادت سنبھالی۔ ان کی وفات کے باوجود، تحریک آج بھی متحرک ہے اور پاکستان کی سیاست میں ایک اہم قوت بنی ہوئی ہے۔
خادم حسین رضوی کی شخصیت کسی کے لیے متنازع اور کسی کے لیے ہیرو کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن ان کی سیاست اور تحریک نے پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو نئی جہت دی۔ ان کا اندازِ خطابت، ان کا لب و لہجہ، اور ان کی تحریک ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
کیا آپ اس مضمون میں مزید کوئی پہلو شامل
کرنا چاہتے ہیں؟
READ MORE RELATED:Palestine
READ MORE RELATED:Agriculture
READ MORE BLOG'S: CLICK HERE